• Fri, Mar 14, 2025 | Ramadan 14, 1446

کامیابی کی کہانی

کامیابی کی کہانی

ماں اور بیٹا

🔹میری والدہ جب کبھی میرے کمرے میں آتیں اور دیکھتیں کہ بتی جل رہی ہے اور میں کمرے میں نہیں ہوں، تو کہتیں: "تم بتی کیوں نہیں بجھاتے؟ اتنی بجلی کیوں ضائع کرتے ہو؟"

جب وہ واش روم میں جاتیں اور نل سے پانی ٹپک رہا ہوتا، تو زور سے کہتیں:--
"تم نل کو اچھی طرح بند کیوں نہیں کرتے؟ اتنے پانی کی بربادی کیوں ہو رہی ہے؟"

ہمیشہ وہ میرے پر تنقید کرتیں اور مجھ پر الزام لگاتیں کہ میں سُستی کا شکار ہوں
چھوٹی اور بڑی ہر بات پر ٹوکتیں، یہاں تک کہ بیماری کی حالت میں بھی

پھر ایک دن آیا جب مجھے نوکری ملی، وہ دن جس کا میں بے صبری سے انتظار کر رہا تھا۔

آج میں اپنی زندگی کی پہلی نوکری کے لیئے انٹرویو دینے جا رہا تھا۔ یہ ایک بڑی کمپنی میں ایک معزز ملازمت کے لیئے تھا۔

دماغ میں خیال آتا تھا کہ اگر میں منتخب ہو گیا تو اس گھر کو چھوڑ کر چلا جاؤں گا اور اپنی والدہ کی مسلسل نصیحتوں سے چھٹکارا حاصل کر لوں گا۔

صبح سویرے اُٹھا، بہترین کپڑے پہنے، خوشبو لگائی اور نکلنے لگاکہ دروازے کے پاس کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
میں نے پلٹ کر دیکھا تو والدہ مسکراتے ہوئے کھڑی تھیں، حالانکہ ان کی آنکھوں میں بیماری کے آثار نمایاں تھے۔

انہوں نے مجھے کچھ پیسے دیے اور کہا: -
"میں چاہتی ہوں کہ تم پُر اعتماد رہو اور کسی سوال سے نہ ڈرو۔"
میں نے یہ نصیحت سن کر بیزاری سے مسکرایا، اندر سے سوچ رہا تھا کہ یہ بھی وقت ہے نصیحت کرنے کا، جیسے وہ میری خوشی کے لمحے کو خراب کرنا چاہتیں ہوں۔

میں گھر سے نکلا،  ٹیکسی میں بیٹھ کر کمپنی کی طرف روانہ ہو گیا۔

جب میں وہاں پہنچا تو حیران رہ گیا
نہ کوئی دربان تھا اور نہ کوئی استقبالیہ کا عملہ، بس کچھ ہدایتی بورڈز لگے ہوئے تھے جو انٹرویو کے کمرے کی طرف رہنمائی کر رہے تھے۔

جیسے ھی میں دروازے میں داخل ہوا، دیکھا کہ دروازے کا ہینڈل اپنی جگہ سے نکلا ہوا ہے اور ٹوٹنے کے قریب ہے۔
مجھے فوراً اپنی والدہ کی نصیحت یاد آئی کہ مثبت رہو، تو میں نے فوراً ہینڈل کو درست کیا۔

آگے چلتے ہوئے دیکھا کہ باغ میں پانی بھر گیا ہے، ایک تالاب کا پانی بہہ رہا تھا، شاید مالی اسے بند کرنا بھول گیا تھا۔
مجھے والدہ کی پانی کے ضیاع پر ناراضگی یاد آئی، میں نے نل کی رفتار کم کر دی اور پانی کے پائپ کا رخ دوسرے تالاب کی طرف کر دیا۔

عمارت کے اندر پہنچا اور سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے دیکھا کہ روشنی کی بتی دن کے وقت جل رہی ہے۔
مجھے والدہ کا چہرہ یاد آیا اور فوراً بتی بجھا دی۔

جب میں انٹرویو کے کمرے میں پہنچا، تو دیکھا کہ بہت سے لوگ جاب حاصل کرنے کے لیئے موجود ہیں۔
سب کی طرف دیکھتے ہوئے، میں نے سوچا کہ میں ان کے سامنے کتنا معمولی سا نظر آ رہا ہوں۔

پھر یہ دیکھا کہ جو بھی انٹرویو دینے جا رہا ہے، چند منٹوں میں واپس آ رہا ہے۔
میں نے سوچا کہ اگر یہ لوگ اپنی تمام قابلیت کے باوجود کامیاب نہیں ہو سکے، تو میں کیسے ہو سکتا ہوں؟

میں نے انٹرویو چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔

لیکن جیسے ہی میں اٹھنے لگا تو اسی وقت، میرا نام پکارا گیا۔
میں اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کرکے کمرے میں داخل ہو گیا۔

سامنے تین افراد بیٹھے تھے، انہوں نے مسکرا کر پوچھا:--
"آپ کب اس نوکری کو سنبھالنا چاہتے ہیں؟"
مجھے لگا جیسے وہ مذاق کر رہے ہوں۔

میں نے اپنی والدہ کی نصیحت یاد کی کہ پُر اعتماد رہو۔
میں نے کہا: "جب میں امتحان میں کامیاب ہو جاؤں گا، تب سنبھالوں گا۔"

ایک نے کہا: "آپ کامیاب ہو چکے ہیں۔"

میں حیران رہ گیا کہ کسی نے مجھ سے کوئی سوال نہیں پوچھا، اور انہوں نے بتایا کہ میرا امتحان ہو چکا ہے۔

پھر ایک صاحب نے کہا:--

"ھم نے کمپنی میں کچھ جگہوں پر خرابیاں جان بوجھ کر رکھیں تھیں تاکہ دیکھ سکیں کہ کون امیدوار انہیں ٹھیک کرتا ہے، اور آپ نے ہر غلطی کو درست کیا۔"

اس لمحے، میرے سامنے سب کچھ ماند پڑ گیا۔ میں نے اپنی والدہ کی تصویر دیکھنا شروع کی۔
وہ سخت مزاج جو ہمیشہ میری بھلائی چاہتیں تھیں۔
مجھے گھر واپس جانے اور ان کے ہاتھ چومنے کی شدید خواہش ہوئی۔

جب میں گھر پہنچا تو وہاں لوگوں کا ہجوم دیکھا۔ سب کے چہروں پر دکھ کے آثار تھے۔

میں بہت دیر سے پہنچا تھا۔

میری والدہ تو اس جہان فانی سےگزر چکیں تھیں اور میں اُن کی محبت اور نصیحتوں کی قدر کرنے میں دیر کر گیا۔

والدہ ماجدہ ، آپ نے ہمیشہ مجھے درست راستہ دکھایا، اور میں آپ کا شکر گزار ہوں۔
آج جب میں خود عمر کے اس حصے میں پہچا ہوں جہاں کبھی میری والدہ تھیں تو ان کی کہی ہر بات کو یاد کر کے بس نادم سا رہتا ہوں ۔
دعا گو ہوں اللہ ان پر خاص رحم فرمائے جنت میں مقام عطا فرمائے۔